تفسير ابن كثير



سورۃ يونس

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ[13] ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ[14]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے تم سے پہلے بہت سے زمانوں کے لوگ ہلاک کر دیے، جب انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ ہرگز ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ [13] پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین میں جانشین بنا دیا، تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ [14]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کردیا جب کہ انہوں نے ﻇلم کیا حاﻻنکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دﻻئل لے کر آئے، اور وه ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں [13] پھر ان کے بعد ہم نے دنیا میں بجائے ان کے تم کو جانشین کیا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو [14]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو جب انہوں نے ظلم کا راستہ اختیار کیا ہلاک کرچکے ہیں۔ اور ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ ہم گنہگار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں [13] پھر ہم نے ان کے بعد تم لوگوں کو ملک میں خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں تم کیسے کام کرتے ہو [14]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 13، 14،

باب

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکے ہیں، اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی، مزے کی، سبز رنگ والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ دنیا سے ہوشیار رہو، اور عورتوں سے ہوشیار رہو، بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا ۔ [صحیح مسلم:2742] ‏‏‏‏

سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا، پھر لٹکائی گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر منبر کے اردگرد لوگوں نے ماپنا شروع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی، ہمیں خوابوں کیا حاجت؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا عوف تمہارا خواب کیا تھا؟ سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے کہا جانے دیجئیے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں؟

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس وقت تو تم خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا، دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بے پرواہ تھا۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے۔‏‏‏‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں “۔ اے عمر رضی اللہ عنہ کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے،خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے؟ آپ کا فرمان کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے۔ شہید ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے مطیع و فرمانبردار تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17090:ضعیف] ‏‏‏‏
3661



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.